Friday, 6 September 2013

میں سمجھا مری گھٹن مِٹانے آیا تھا

میں سمجھا، مِری گھٹن مِٹانے آیا تھا
وہ جھونکا تو، دِیا 🪔بجھانے آیا تھا
موسمِ گل اُس بار بھی آیا تھا، لیکن
کیا آیا، بس خاک اڑانے آیا تھا
چشمِ زدن میں ساری بستی ڈوب گئی
دریا کس کی پیاس بجھانے آیا تھا
مہر نشاں، زرکار قبا، وہ یار مرا
مجھ کو سنہرے خواب دِکھانے آیا تھا
خالی چھتری دیکھ فسردہ لوٹ گیا
بِچھڑا پنچھی اپنے ٹھکانے آیا تھا

پیرزادہ قاسم صدیقی

No comments:

Post a Comment