سودا سفر کا تھا کبھی اب سر میں کچھ نہ تھا
اک بُوئے رفتگاں کے سوا گھر میں کچھ نہ تھا
پھیلی ہوئی ہتھیلی پہ رکھی تھی عاجزی
اور اختیار دستِ تونگر میں کچھ نہ تھا
پھر سارا کام پاؤں کی لغزش نے کر دیا
ٹھوکر لگی تو کانچ کے پیکر میں کچھ نہ تھا
پھر اس کے بعد چشمِ طلب سیر ہو گئی
پہلے لگا کہ حُسن کے لنگر میں کچھ نہ تھا
جب اس نے دل پہ ہاتھ دھرا تو دھڑک اُٹھا
اور اس سے پہلے خُون تھا پتھر میں کچھ نہ تھا
پھر اس نے پیار سے مِرا کشکول بھر دیا
لیکن کہا کہ تیرے مقدّر میں کچھ نہ تھا
اک بُوئے رفتگاں کے سوا گھر میں کچھ نہ تھا
پھیلی ہوئی ہتھیلی پہ رکھی تھی عاجزی
اور اختیار دستِ تونگر میں کچھ نہ تھا
پھر سارا کام پاؤں کی لغزش نے کر دیا
ٹھوکر لگی تو کانچ کے پیکر میں کچھ نہ تھا
پھر اس کے بعد چشمِ طلب سیر ہو گئی
پہلے لگا کہ حُسن کے لنگر میں کچھ نہ تھا
جب اس نے دل پہ ہاتھ دھرا تو دھڑک اُٹھا
اور اس سے پہلے خُون تھا پتھر میں کچھ نہ تھا
پھر اس نے پیار سے مِرا کشکول بھر دیا
لیکن کہا کہ تیرے مقدّر میں کچھ نہ تھا
محمد سلیم طاہر
No comments:
Post a Comment