Wednesday 27 March 2013

تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے

تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے
میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے
کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہیئے؟
آنکھ بھی خوں ہو گئی دامن بھی اب گلنے کو ہے
گلستاں میں پڑ گئی ہے رسم تجسیم بہار
اپنے چہرے پر ہر اک گل، خون دل ملنے کو ہے
اجنبی سی سرزمیں ناآشنا سے لوگ ہیں
ایک سورج تھا شناسا، وہ بھی اب ڈھلنے کو ہے
ہر نئی منزل کی جانب صورت ابر رواں
میرے ہاتھوں سے نکل کر میرا دل چلنے کو ہے
شہر پر طوفان سے پہلے کا سناٹا ہے آج
حادثہ ہونے کو ہے یا سانحہ ٹلنے کو ہے
اک ہوائے تند اور ہمراہ کچھ چنگاریاں
خاک سی اڑنے کو ہے اور آگ سی جلنے کو ہے
سامنے ہے نیند کی لمبی مسافت آج شب
کاروان انجم و مہتاب بھی چلنے کو ہے

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment