Sunday 18 February 2018

یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے

یوں تِرے حسن کی تصویر غزل میں آئے 
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے 
جبر سے ایک ہوا ذائقۂ ہجر و وصال 
اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے 
ہمسفر تھی جہاں فرہاد کے تیشے کی صدا
وہ مقامات بھی کچھ سیرِِ جبل میں آئے
یہ بھی آرائشِ ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم 
حلقۂ فکر سے میدانِ عمل میں آئے 
ہر قدم دست و گریباں ہے یہاں خیر سے شر 
ہم بھی کس معرکۂ جنگ و جدل میں آئے 
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی 
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے 

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment