یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے
ٹھہر گئی آسماں کی ندیا
وہ جا لگی افق کنارے
اداس رنگوں کی چاندنیا
اتر گئے ساحلِ زمیں پر
سبھی کھویّا
اکھڑ گئی سانس پتیوں کی
چلی گئیں اونگھ میں ہوائیں
گجر بچا حکمِ خامشی کا
تو چپ میں گم ہوگئی صدائیں
سحر کی گوری کی چھاتیوں سے
ڈھلک گئی تیرگی کی چادر
اور اس بجائے
بکھر گئے اس کے تن بدن پر
نراس تنہائیوں کے سائے
اور اس کو کچھ بھی خبر نہیں ہے
کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ہے
کہ دن ڈھلے شہر سے نکل کر
کدھر کو جانے کا رخ کیا تھا
نہ کوئی جادہ، نہ کوئی منزل
کسی مسافر کو اب دماغِ سفر نہیں ہے
یہ وقت زنجیرِ روز و شب کی
کہیں سے ٹوٹی ہوئی کڑی ہے
یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے
یہ وقت آئے تو بے ارادہ
کبھی کبھی میں بھی دیکھتا ہوں
اتار کر ذات کا لبادہ
کہیں سیاہی ملامتوں کی
کہیں پہ گل بوٹے الفتوں کے
کہیں لکیریں ہیں آنسوؤں کی
کہیں پہ خونِ جگر کے دھبّے
یہ چاک ہے پنجۂ عدو کا
یہ مہر ہے یارِ مہرباں کی
یہ لعل لب ہائے مہوشاں کے
یہ مرحمت شیخِ بد زباں کی
یہ جامۂ روز و شب گزیدہ
مجھے یہ پیراہن دریدہ
عزیز بھی، ناپسند بھی ہے
کبھی یہ فرمانِ جوشِ وحشت
کہ نوچ کر اس کو پھینک ڈالو
کبھی یہ اصرارِحرفِ الفت
کہ چوم کر پھر گلے لگا لو
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment