سکوتِ شب ہی ستم ہو تو ہم اٹھائیں بھی
وہ یاد آئے، تو چلنے لگیں ہوائیں بھی
یہ شہر میرے لیے اجنبی نہ تھا، لیکن
تمہارے ساتھ بدلتی گئیں فضائیں بھی
جو بزمِ دوست سے اٹھ کر چلے بزعمِ تمام
دلوں کا قُرب کہیں فاصلوں سے مِٹتا ہے
یہ خود فریب تِرا شہر چھوڑ جائیں بھی
ہم ایسے لوگ جو آشوبِ دہر میں بھی ہیں خوش
عجب نہیں ہے اگر تجھ کو بھول جائیں بھی
سحر گزیدہ ستاروں کا نور بجھنے لگا
فراؔز اٹھو اب اس کی گلی سے جائیں بھی
احمد فراز
No comments:
Post a Comment