Tuesday 13 February 2018

پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو

پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو

ہم کیا کرتے کس رہ چلتے 
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے 
ان رشتوں کے جو چھوٹ گئے 
ان صدیوں کے یارانوں کے 
جو اک اک کر کے ٹوٹ گئے 

جس راہ چلے جس سمت گئے 
یوں پاؤں لہولہان ہوئے 
سب دیکھنے والے کہتے تھے 
یہ کیسی رِیت رچائی ہے 
یہ مہندی کیوں لگائی ہے 
وہ کہتے تھے کیوں قحطِ وفا 
کا ناحق چرچا کرتے ہو 
پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو
یہ راہیں جب اَٹ جائیں گی 
سو رَستے ان سے پھوٹیں گے 
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی 
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment