تیری زلفوں نے کیا کس پہ کرم رات گئے
کس کے ہاتھوں سے نکالے گئے خم رات گئے
شب وعدہ کے مصائب کا نہیں میں ہی شکار
گھٹنے لگتا ہے ستاروں کا بھی دم رات گئے
اوس پڑ جاتی ہے خوشیوں پہ نہ آنے سے تِرے
ضبط کرتا ہوں مگر ضبط کی حد ہوتی ہے
ہم سے رکتی نہیں یلغارِ الم رات گئے
راستہ دیکھتی ہیں شام سے آنکھیں اے چرخؔ
وہ نہیں آتے تو ہو جاتی ہیں نم رات گئے
چرخ چنیوٹی
No comments:
Post a Comment