Thursday, 15 February 2018

تیری زلفوں نے کیا کس پہ کرم رات گئے

تیری زلفوں نے کیا کس پہ کرم رات گئے
کس کے ہاتھوں سے نکالے گئے خم رات گئے
شب وعدہ کے مصائب کا نہیں میں ہی شکار
گھٹنے لگتا ہے ستاروں کا بھی دم رات گئے
اوس پڑ جاتی ہے خوشیوں  پہ نہ آنے سے تِرے
سر اٹھاتے ہیں بہم، رنج و الم رات گئے
ضبط کرتا ہوں مگر ضبط کی حد ہوتی ہے
ہم سے رکتی نہیں یلغارِ الم رات گئے
راستہ دیکھتی ہیں شام سے آنکھیں اے چرخؔ
وہ نہیں آتے تو ہو جاتی ہیں نم رات گئے

چرخ چنیوٹی

No comments:

Post a Comment