واہ یہ لطفِ سوزِ الفت کس کی بدولت، دل کی بدولت
دوزخ بھی ہے مجھ کو جنت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
دل میں ہے داغوں کی کثرت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
ایسی دولت اتنی دولت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
سب سے الفت سب کی حسرت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
پیشِ نظر رہتے ہیں باہم، پھرتے ہیں آنکھوں میں ہر دم
حسنِ کثرت نورِ وحدت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
ان کو بھی ہے میرا سودا، مجھے بھی ہے سودا ان کا
ایک ہوئی دونوں کی صورت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
دیکھ لیا کرتا ہوں اکثر، یہ بھی عالم، وہ بھی منظر
شامِ فرقت صبح قیامت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
کرتا ہو میں اپنا ماتم،۔ آتی ہے الفت میں پیہم
کس پر آفت مجھ پر آفت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
میں جو نہ بزمِ ناز میں جاتا، کیوں غمزہ مجھ کو تڑپاتا
ہنستے بولتے آ گئی شامت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
اہلِ وفا نے مجھ کو جانا، اہلِ جفا نے بھی پہچانا
یہ ہے عزت یہ ہے شہرت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
کِیا ہو قصد نکل جانے کا، گھر پا کر اب شاد ہے کیا کیا
ارماں ارماں حسرت حسرت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
اکثر مِٹنا، اکثر اُبھرنا، اکثر جینا، اکثر مرنا
رہتی ہے یہ میری صورت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
اٹھتے بیٹھتے رونا دھونا، اشکوں سے دل کو ڈبونا
نوحؔ یہ ہے طوفاں کی شدت، کس کی بدولت، دل کی بدولت
نوح ناروی
No comments:
Post a Comment