جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے
اک ابر کا ٹکڑا انہیں کیا دے گا دلاسے
مانا کہ ضروری ہے نگہبانی خودی کی
بڑھ جائے نہ انسان مگر اپنی قبا سے
برسوں کی مسافت میں وہ طے ہو نہیں سکتے
تُو خون کا طالب تھا تِری پیاس بجھی ہے
میں پاتا رہا نشو و نما آب و ہوا سے
مجھ کو تو مِرے اپنے ہی دل سے ہے شکایت
دنیا سے گلہ کوئی، نہ شکوہ ہے خدا سے
ڈر ہے کہ مجھے آپ بھی گمراہ کریں گے
آتے ہیں نظر آپ بھی کچھ راہ نما سے
دم بھر میں وہ زمیں بوس ہو جاتی ہے واصؔف
تعمیر نکل جاتی ہے جو اپنی بِنا سے
واصف علی واصف
No comments:
Post a Comment