Tuesday, 20 February 2018

مری بات سن مرے ہم نفس مرے ساتھ اب تو وفا نہ کر

 مِری بات سن مِرے ہم نفس! مِرے ساتھ اب تو وفا نہ کر 

میں چراغ ہوں جو بُجھا ہوا، مجھے روشنی کی دُعا نہ کر 

میں وہ اشک ہوں جو گِرا نہیں میں وہ درد ہوں جو ہوا نہیں 

مِرا ظرف مجھ سے ہے کہہ رہا؛ مِرے زخم کی تو دوا نہ کر 

تِری آرزو میں سنور گیا،۔ تِری جستجو میں بکھر گیا 

تِری سازشوں میں جو راز ہے تو کبھی بھی اس کو کہا نہ کر 

مِرا ہمسفر بھی رہا ہے تُو، مِری ہر غزل میں چھُپا ہے تو 

مِری دھڑکنوں سے تو آ کے مل مجھے رہگزر میں ملا نہ کر 

یہ سمجھ لے سرورِ! غمزدہ؛۔ وہ رحیم ہے، وہ کریم ہے 

جو لکھا ہے اس نے نصیب میں کبھی اس کا شکوہ گِلہ نہ کر


سرور لکھنوی

پربھات کمار 

No comments:

Post a Comment