اسیرِ ساعت
اسیرِ ساعت یہ پوچھتا ہے
کہ وقت کی قید کب تلک ہے؟
زماں کو یہ اختیار کیوں ہو
کوئی بھی لمحہ
کسی کی بے وقت زندگی کو
اور اک سرا دست وقت میں دے کے
دوسرا بخت کو تھما دے
دمِ اسیری، سبیل کیا ہو؟
کہ اب مکاں بھی زماں کی پھیلی گرِفت میں ہے
کبھی تو یہ بھی گماں ہوا ہے
کہ وقت ساکن ہے اور ہم سب گزر رہے ہیں
اگر یہ سچ ہے؟
تو آؤ! ہم تم بھی ساعتوں کی گِرہ کو کھولیں
حصارِِ لمحہ کو توڑ ڈالیں
کھلی فضا کی اڑان بھر لیں
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment