Wednesday, 14 February 2018

گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں

گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں 
میں اک گہرا سمندر بن گیا ہوں 
تری یادوں کے انگاروں کو اکثر 
تصور کے لبوں سے چومتا ہوں 
کوئی پہچاننے والا نہیں ہے 
بھرے بازار میں تنہا کھڑا ہوں 
مِرا قد کتنا اونچا ہو گیا ہے 
فلک کی وسعتوں کو ناپتا ہوں 
وہ یوں مجھ کو بھلانا چاہتے ہیں 
کہ جیسے میں بھی کوئی حادثہ ہوں 
بدلتے موسموں کی ڈائری سے 
تِرے بارے میں اکثر پوچھتا ہوں 
مِرے کمرے میں یادیں سو رہی ہیں 
میں سڑکوں پر بھٹکتا پھر رہا ہوں 
ابھرتے ڈوبتے سورج کا منظر 
بسوں کی کھڑکیوں سے دیکھتا ہوں 
کسی کی یاد کے پتوں کو آزرؔ 
ہواؤں سے بچا کر رکھ رہا ہوں

کفیل آزر

No comments:

Post a Comment