مجھ سے اب تک یہ گِلہ ہے مِرے غمخواروں کو
کیوں چھوا میں نے تِری یاد کے انگاروں کو
ذہن و دل حشر کے سورج کی طرح جلتے ہیں
جب سے چھوڑا ہے تِرے شہر کی دیواروں کو
آج بھی آپ کی یادوں کے مقدس جھونکے
آرزو سوچ تڑپ درد کسک غم آنسو
ہم سے کیا کیا نہ ملا ہجر کے بازاروں کو
تیرے جلتے ہوئے ہونٹوں کی حرارت نہ ملی
میری تنہائی کے بھیگے ہوئے رخساروں کو
تم کو ماحول سے ہو جائے گی نفرت آزرؔ
اتنے نزدیک سے دیکھا نہ کرو یاروں کو
کفیل آزر
No comments:
Post a Comment