Tuesday 27 February 2018

مجھ سے اب تک یہ گلہ ہے مرے غم خواروں کو

مجھ سے اب تک یہ گِلہ ہے مِرے غمخواروں کو 
کیوں چھوا میں نے تِری یاد کے انگاروں کو
ذہن و دل حشر کے سورج کی طرح جلتے ہیں 
جب سے چھوڑا ہے تِرے شہر کی دیواروں کو
آج بھی آپ کی یادوں کے مقدس جھونکے 
چھیڑ جاتے ہیں محبت کے گنہ گاروں کو
آرزو سوچ تڑپ درد کسک غم آنسو 
ہم سے کیا کیا نہ ملا ہجر کے بازاروں کو
تیرے جلتے ہوئے ہونٹوں کی حرارت نہ ملی 
میری تنہائی کے بھیگے ہوئے رخساروں کو
تم کو ماحول سے ہو جائے گی نفرت آزرؔ 
اتنے نزدیک سے دیکھا نہ کرو یاروں کو

کفیل آزر

No comments:

Post a Comment