ایک سے ایک ہے رستم کے گھرانے والا
ہے کوئی قبلۂ اول کو چھڑانے والا؟
قہر آلود نگاہیں، نہ بڑے دانت، مگر
چہرہ چہرہ نظر آتا ہے ڈرانے والا
دھوپ سے آبلے پتھر میں پڑے جاتے ہیں
میرے چہرے پہ ندامت کی کہانی لکھ کر
آئینہ دیکھنے لگتا ہے دکھانے والا
اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ زباں پھیر چکا
پیاس اک عمر زمانے کی بجھانے والا
خوف کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی میں مِِری
اور ایک سانپ مِرے سر میں خزانے والا
آپ بھی ساتھ اگر ہوں تو مزا آ جائے
رات کے ساتھ اندھیرا بھی ہے آنے والا
ارتضیٰ نشاط
No comments:
Post a Comment