قافلے گزرے ہیں زنجیر بہ پا
دائم آباد رہے شہر تِرا
دل ہے یا شہرِ خموشاں کوئی
نہ کوئ چاپ، نہ دھڑکن، نہ صدا
آخرِ عشق کی رسوائی ہے
تجھ کو دیکھا ہے تو اب سوچتے ہیں
تجھ سے ملنے کا سبب کیا ہو گا
وہم تھا قافلۂ ہم سفراں
مڑ کے دیکھا تو کوئی ساتھ نہ تھا
شبِ تیرہ ہی غنیمت تھی فرازؔ
چاند نکلا ہے تو دل ڈوب چلا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment