دل رات کی بنجر وادی میں اک آس لگائے رکھتا ہے
اک پھول کھلائے رکھتا ہے، اک دِیپ جلائے رکھتا ہے
سنسار! نہ اندر آ جانا، مت گیان کا مندر ڈھا جانا
دل دھیان کی روشن کٹیا میں اک یاد بلائے رکھتا ہے
میں ذرہ رُلتے کنکر کا، وہ چاند چمکتے امبر کا
اک ہجر کا مارا بے چارہ، دلدار ملن کا متوارا
گھپ رات کے گہرے جنگل میں دو نین جگائے رکھتا ہے
مت ڈھونڈ وہ گھیرے دار شجر جو چھاؤں چھڑکتا تھا تجھ پر
اب دھوپ سمے کی سہہ سہہ کر شاخوں کو جھکائے رکھتا ہے
وہ پیڑ پرائے آنگن کا، وہ پھول کسی کے گلشن کا
دن رات سلگتی سانسوں میں خوشبو سی رچائے رکھتا ہے
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment