Thursday, 15 February 2018

دید سے ذوق ملاقات سے آگے نکلے

دید سے، ذوقِ ملاقات سے آگے نکلے 
عشق ممکن ہے تِری ذات سے آگے نکلے
لاگ جب اس کی بدل جائے لگاؤ میں کبھی
خاک تو ارض و سماوات سے آگے نکلے
روک لیتی ہے طلسمات کی جادو نگری
کب کوئی شہرِ جمادات سے آگے نکلے
پٙر نکلنے پہ کبھی ان کے ذرا دیکھنا تم
کون پیکر سے الگ، جات سے آگے نکلے
برف سے کر دو سفر اس کا سمندر کی طرف
بوند بھی زعمِ مقامات سے آگے نکلے
عشق کہتا ہے ابھی اس کا ہنر خام رہے
لوگ کہتے ہیں کمالات سے آگے نکلے

شازیہ اکبر

No comments:

Post a Comment