بجھ گئیں عقلوں کی آنکھیں گل گئے جذبوں کے پر
کہر کے کیچڑ میں تڑپے ہیں پرندے رات بھر
جانے پھر کن دلدلوں سے آخری آواز دیں
اپنی بے منشور عمریں اپنے بے منزل سفر
میرے باہر چار سو مرتی صداؤں کا سراب
تو کنول کی شکل میں پھوٹے گا اپنی ذات سے
جسم کی خواہش کے گہرے پانیوں میں بھی اتر
پھر مری مٹی میں اپنی چاہتوں کی سونگھنا
پہلے میری سانس کے سنسان جنگل سے گزر
دل میں ناسکؔ رہ گئی ہیں آرزو کی دو لویں
ایک خوش عادت سی لڑکی اور اک چھوٹا سا گھر
نثار ناسک
No comments:
Post a Comment