Wednesday 14 February 2018

بجھ گئیں عقلوں کی آنکھیں گل گئے جذبوں کے پر

بجھ گئیں عقلوں کی آنکھیں گل گئے جذبوں کے پر
کہر کے کیچڑ میں تڑپے ہیں پرندے رات بھر
جانے پھر کن دلدلوں سے آخری آواز دیں
اپنی بے منشور عمریں اپنے بے منزل سفر
میرے باہر چار سو مرتی صداؤں کا سراب
تُو بکھرنا چاہتا ہے تو مرے اندر بکھر
تو کنول کی شکل میں پھوٹے گا اپنی ذات سے
جسم کی خواہش کے گہرے پانیوں میں بھی اتر
پھر مری مٹی میں اپنی چاہتوں کی سونگھنا
پہلے میری سانس کے سنسان جنگل سے گزر
دل میں ناسکؔ رہ گئی ہیں آرزو کی دو لویں
ایک خوش عادت سی لڑکی اور اک چھوٹا سا گھر

نثار ناسک

No comments:

Post a Comment