یاس میں جب کبھی آنسو نکلا
اک نئی یاد کا پہلو نکلا
لے اڑی سبزۂ خودرو کی مہک
پھر تِری یاد کا پہلو نکلا
میٹھی بولی میں پپیہے بولے
آئیں ساون کی اندھیری راتیں
کہیں تارا، کہیں جگنو نکلا
نئے مضمون سجھاتی ہے صبا
کیا ادھر سے وہ سمن بُو نکلا
پاؤں چلنے لگی جلتی ہوئی ریت
دشت سے جب کوئی آہو نکلا
کئی دن رات سفر میں گزرے
آج تو چاند لبِ جو نکلا
طاق میخانہ میں چاہی تھی اماں
وہ بھی تیرا خمِ ابرو نکلا
اہل دل سیر چمن سے بھی گئے
عکس گل سایۂ گیسو نکلا
واقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوئے
بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment