Sunday, 18 February 2018

یاس میں جب کبھی آنسو نکلا

یاس میں جب کبھی آنسو نکلا 
اک نئی یاد کا پہلو نکلا
لے اڑی سبزۂ خودرو کی مہک 
پھر تِری یاد کا پہلو نکلا
میٹھی بولی میں پپیہے بولے
گنگناتا ہوا جب تُو نکلا
آئیں ساون کی اندھیری راتیں 
کہیں تارا، کہیں جگنو نکلا
نئے مضمون سجھاتی ہے صبا
کیا ادھر سے وہ سمن بُو نکلا
پاؤں چلنے لگی جلتی ہوئی ریت 
دشت سے جب کوئی آہو نکلا
کئی دن رات سفر میں گزرے
آج تو چاند لبِ جو نکلا
طاق میخانہ میں چاہی تھی اماں
وہ بھی تیرا خمِ ابرو نکلا
اہل دل سیر چمن سے بھی گئے 
عکس گل سایۂ گیسو نکلا
واقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوئے 
بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment