لرزہ سا کبھی تن میں کبھی جان میں آیا
اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا
خوں ہو کے یہ دل طاق ہوا عرضِ ہنر میں
یہ ساز سدا ٹوٹ کے ہی تان میں آیا
تھا خواب بھی اک کرمکِ شب تاب کی صورت
کچھ یوں بھی مجھے عمر کے گھٹنے کا قلق تھا
کچھ سخت خسارہ میرے ارمان میں آیا
اے ربِ سخن! میں کوئی ایسا تو نہیں تھا
کیا جانئے، کیسے تیری پہچان میں آیا
وہ دید بھی کیا دید تھی، پر کیسے بتاؤں
اک عمر ہوئی میں نہیں اوسان میں آیا
آفتاب اقبال شمیم
No comments:
Post a Comment