بجائے کوئی شہنائی، مجھے اچھا نہیں لگتا
محبت کا تماشائی، مجھے اچھا نہیں لگتا
وہ جب بچھڑے تھے ہم تو یاد ہے گرمی کی چھٹیاں تھیں؟
تبھی سے ماہِ جولائی، مجھے اچھا نہیں لگتا
وہ شرماتی ہے اتنا کہ ہمیشہ اس کی باتوں کا
نجانے اتنی کڑواہٹ کہاں سے آ گئی مجھ میں
کرے جو میری اچھائی، مجھے اچھا نہیں لگتا
مِرے دشمن کو اتنی فوقیت تو ہے بہر صورت
کہ تُو ہے اس کی ہمسائی، مجھے اچھا نہیں لگتا
نہ اتنی داد دو جس میں مِری آواز دب جائے
کرے جو یوں پذیرائی، مجھے اچھا نہیں لگتا
تِری خاطر نظر انداز کرتا ہوں اسے، ورنہ
وہ جو ہے نا تِرا بھائی، مجھے اچھا نہیں لگتا
عامر امیر
No comments:
Post a Comment