دل میں کوئی ہمدرد رہتا ہے
اس کے باعث ہی درد رہتا ہے
ساری گرمی تمہارے دَم سے تھی
دل کا موسم اب سرد رہتا ہے
میرے سر کی قسم نہ کھایا کرو
گھر جو دیکھا مِرا تو کہنے لگے
"کوئی آوارہ گرد رہتا ہے"
تم جو تھے تو بہار ہوتی تھی
پتا پتا اب زرد رہتا ہے
شہر میں سب حنیف پتھر ہیں
کب یہاں کوئی فرد رہتا ہے
حنیف سمانا
No comments:
Post a Comment