عرضی
تِرے دربارن کی منگتی کا
رہے قائم بھاگ سہاگ پیا
سرکار سائیں! منجدھار پڑے
بیمار نصیبوں بیچ بڑے منجدھار پڑے
سرکار سائیں! وہ من کی گوری کلمونہی
ان الہڑے زخموں والے کومل ہاتھوں میں
کچھ یاس کی کالی ٹوٹی چوڑیاں لائی تھی
جسے ان دو گھائل نینوں کے سنگ جینا بھی نئیں آتا تھا
وہ سجنی دنیا تَج آئی
سنگھار گیؤ
سرکار سائیں
سب روپ سروپ اروپ ہوا
سانول کا بچھوڑا روح کے بیچوں بیچ بنا دیوار گیؤ
لو! ٹوٹی چوڑیاں جوڑ دیؤ
کوئی آس امید کی مہکارن کا گجرا ہو
کوئی پی کے نام کا کنگن ہو
کوئی چُوڑا ہو
جسے بانجھ کلائیاں پہن سہاگن ہو جاویں
مِرا روپا، جوبن ہار گیؤ
سرکار سائیں
سانول کا بچھوڑا مار گیؤ
مِرے سینے درد غموں کے تیر اتار گیؤ
بیمار نصیبوں بیچ سجا منجدھار گیؤ
منجدھار پڑے
سرکار سائیں
غمخوار سائیں
اک بار سائیں
سنو عرضی بس اک بار سائیں
مجھے بول دیؤ
مجھے کتنے دیپ جلانے ہیں
مجھے کِت کِت جھاڑو دینا ہے
میں لاکھ کروں جاروب کشی
مجھے کتنا پانی بھرنا ہے
میں گنگا جل سے گاگریا بھر لاؤں گی
تِرے دربارن کی ماٹی چوم کے
اجڑی ماندی زلفوں بیچ سجاؤں گی
جگ گھوموں گی
اے سچے سُچے اجلے، اے دلدار سائیں
وَالَّیْل کی آیت پھونکو ناں
کچھ زلف کے گنجل بھی سلجھیں
کبھی کرو تلاوت یوسف کی
مِرے بیچ زلیخا روتی ہے
مجھے کبھی "ضُحٰی" کا پاٹ دسو
مِرا مکھڑا روشن ہووے، بھاوے سانول کو
وَالْعَصْر کو گھولو سینے میں
مجھے گھاٹے نا منظور سائیں
اخْلَاْصْ بسا دو روح اندر
مجھے اب ہر جائی ہونا ہے
مجھے وصل دیؤ سرکار سائیں
مجھے ایک اکائی ہونا ہے
زین شکیل
No comments:
Post a Comment