قرار کھو کے چلے بے قرار ہو کے چلے
ادا ادا پہ تِری ہم نثار ہو کے چلے
رہِ وفا میں رقابت کے موڑ بھی ہیں بہت
یہ دل سے کہہ دو ذرا ہوشیار ہو کے چلے
کسی کے کہنے پہ طوفاں میں ڈال دی کشتی
ہمیں تو ناز ہے اپنے حسیں گناہوں پر
وہ لوگ اور تھے جو شرمسار ہو کے چلے
تمہاری عنبریں زلفوں کو چھو کے آئی ہے
ہوا کی موج نہ کیوں مشکبار ہو کے چلے
وہ جیتے جی تو نہ آئے مزاج پُرسی کو
جنازہ دیکھا تو ساتھ اشکبار ہو کے چلے
نظر نے مل کے نظر سے ملا دیا ہم کو
یہ ربط باہمی اب استوار ہو کے چلے
وہ عرضِ وصل پہ خاموش ہو کے بیٹھ گئے
نہ آر ہو کے چلے وہ، نہ پار ہو کے چلے
ازل سے چرخؔ طبیعت شگفتہ ہے اپنی
جو ملنے آئے وہ باغ و بہار ہو کے چلے
چرخ چنیوٹی
No comments:
Post a Comment