ہم سلام ان کو کِیا کرتے ہیں آتے جاتے
دعوتِ شوق دیا کرتے ہیں آتے جاتے
حسرتِ دید نے اک حشر اٹھا رکھا ہے
دستک اس در پہ دیا کرتے ہیں آتے جاتے
مسکرا کر، کبھی پازیب کو جنبش دے کر
جلوے رک سکتے نہیں ان کے درونِ پردہ
خود کو دھوکا وہ دیا کرتے ہیں آتے جاتے
گیت وہ چھیڑ کہ ہوں جن میں پرانی یادیں
انہیں متوجہ کیا کرتے ہیں آتے جاتے
ہم بھی اے چرخ سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں انہیں
حال جو پوچھ لیا کرتے ہیں آتے جاتے
چرخ چنیوٹی
No comments:
Post a Comment