اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے
میرے ہونٹوں پہ مِرے نام کا بوسہ رکھ دے
حلق سے اب تو اترتا نہیں اشکوں کا نمک
اب کسی اور کی گردن پہ یہ دنیا رکھ دے
روشنی اپنی شباہت ہی بھلا دے نہ کہیں
تُو کہاں لے کے پھرے گی مری تقدیر کا بوجھ
میری پلکوں پہ شبِ ہجر! یہ تارا رکھ دے
ہم جو چلتے ہیں تو خود بنتا چلا جاتا ہے
لاکھ مٹی میں چھپا کر کوئی رستہ رکھ دے
مجھ سے لے لے مِرے قِسطوں پہ خریدے ہوئے دن
میرے لمحے میں مِرا سارا زمانہ رکھ دے
مجھ کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسکؔ
جیسے کمرے میں کوئی صحن سے پنجرا رکھ دے
نثار ناسک
No comments:
Post a Comment