یوں تِرے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے
جبر سے ایک ہوا ذائقۂ ہجر و وصال
اب کہاں سے وہ مزا صبر کے پھل میں آئے
ہمسفر تھی جہاں فرہاد کے تیشے کی صدا
یہ بھی آرائشِ ہستی کا تقاضا تھا کہ ہم
حلقۂ فکر سے میدانِ عمل میں آئے
ہر قدم دست و گریباں ہے یہاں خیر سے شر
ہم بھی کس معرکۂ جنگ و جدل میں آئے
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment