تیرے چہرے کے ابھی خواب نہیں دیکھتا میں
اس لئے رات کو مہتاب نہیں دیکھتا میں
اپنی مٹی کے اجالوں پہ یقیں ہے مجھ کو
اب چراغوں کی تب و تاب نہیں دیکھتا میں
جو بھی سچ ہو میں اسے منہ پہ کہا کرتا ہوں
سارا احوال بتا دیتے ہیں جگنو آ کر
جھیل میں کیا ہے تہہِ آب نہیں دیکھتا میں
کون کیسا ہے اسے ظرف سے پہچانتا ہوں
جسم کے اطلس و کمخواب نہیں دیکھتا میں
مجھ پہ ہے میرے خدا کی وہ عنایت خالد
بانٹنا چاہوں تو اسباب نہیں دیکھتا میں
خالد سجاد احمد
No comments:
Post a Comment