Wednesday 7 February 2018

اک دیا جلتا رہا جس کو منانے کے لیے

اک دیا جلتا رہا جس کو منانے کے لئے 
اب وہ تیار نہیں خواب میں آنے کے لئے
گھوم کر دیکھ لی دنیا بھی مگر یہ نہ کھلا 
کون سا شہر مناسب ہے ٹھکانے کے لئے
لوٹ کر آیا نہیں چھوڑ کے جانے والا 
میں نے آواز تو دی اس کو بلانے کے لئے
تُو نے دیکھی نہیں اس وقت زمیں کی گردش 
رقص کرتا ہوں میں جب یار منانے کے لئے
میں نے تو دیکھ لے دروازے کھلے رکھے ہیں
تُو نے تو پال لئے سانپ خزانے کے لئے
یہ دِیا یونہی نہیں جلتا سرہانے میرے 
روز آتا ہے کوئی خواب چرانے کے لئے
میں کسی اور سہارے کی طلب کیا رکھوں 
میرے بیٹے ہیں مرا ہاتھ بٹانے کے لئے
کیا کروں گھات میں ہیں جان کے دشمن خالد 
راہ بھی ایک ہی ہے لوٹ کے جانے کے لئے

خالد سجاد احمد

No comments:

Post a Comment