اک دیا جلتا رہا جس کو منانے کے لئے
اب وہ تیار نہیں خواب میں آنے کے لئے
گھوم کر دیکھ لی دنیا بھی مگر یہ نہ کھلا
کون سا شہر مناسب ہے ٹھکانے کے لئے
لوٹ کر آیا نہیں چھوڑ کے جانے والا
تُو نے دیکھی نہیں اس وقت زمیں کی گردش
رقص کرتا ہوں میں جب یار منانے کے لئے
میں نے تو دیکھ لے دروازے کھلے رکھے ہیں
تُو نے تو پال لئے سانپ خزانے کے لئے
یہ دِیا یونہی نہیں جلتا سرہانے میرے
روز آتا ہے کوئی خواب چرانے کے لئے
میں کسی اور سہارے کی طلب کیا رکھوں
میرے بیٹے ہیں مرا ہاتھ بٹانے کے لئے
کیا کروں گھات میں ہیں جان کے دشمن خالد
راہ بھی ایک ہی ہے لوٹ کے جانے کے لئے
خالد سجاد احمد
No comments:
Post a Comment