جب دریچے میں شام ہو جائے
بے کلی بے لگام ہو جائے
وہ اچٹتی سی اک نظر ڈالے
میرا قصہ تمام ہو جائے
دل سا راون کہیں نہیں دیکھا
ہم اندھیرے میں ملنا چاہیں تو
چاند بالائے بام ہو جائے
ایسی بستی میں کیا کریں کہ جہاں
دن نکلتے ہی شام ہو جائے
آپ آئیں تو دین و دنیا سے
کچھ سلام و پیام ہو جائے
وہ تحکّم ہے اسکے لہجے میں
سننے والا غلام ہو جائے
ہم کو آخر کہیں تو رہنا ہے
چل بدن میں قیام ہو جائے
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment