کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہو گا
اے میں قربان، وفا وعدۂ فردا ہو گا
حشر کے روز بھی کیا خونِ تمنا ہو گا
سامنے آئیں گے یا آج بھی پردا ہو گا
ہم نہیں جانتے ہیں حشر میں کیا کیا ہو گا
تُو بتا دے ہمیں صدقے تِرے اے شانِ کرم
ہم گنہ گار ہیں، کیا حشر ہمارا ہو گا
لاکھ پردوں میں کوئی اے نگہِ شوق رہے
دیکھ لے گا جو کوئی دیکھنے والا ہو گا
ایسی لے دے ہوئی آ کر کہ الٰہی توبہ
ہم سمجھتے تھے کہ محشر میں تماشا ہو گا
سعی ہر گام میں کی ہے یہ سمجھ کر ہم نے
وہی ہو گا جو مشیئت کا تقاضا ہو گا
پی کے آیا عرق شرم جبیں پر جو کبھی
چہرے پر بادہ کشو نور برستا ہو گا
رہنے دے گا نہ دمِ ذبح کوئی حلق کو خشک
مے کدے میں ہمیں اتنا تو سہارا ہو گا
شرمِ عصیاں سے نہیں اٹھتی ہیں پلکیں اپنی
ہم گنہ گار سے کیا حشر میں پردا ہو گا
کعبہ سنتے ہیں کہ گھر ہے بڑے داتا کا ریاض
زندگی ہے تو فقیروں کا بھی پھیرا ہو گا
ریاض خیرآبادی
No comments:
Post a Comment