Saturday 10 February 2018

ہم سمجھے تھے ہم نے غم کو دیس نکالا دے ڈالا ہے

ہم سمجھے تھے ہم نے غم کو دیس نکالا دے ڈالا ہے 
تیری باتوں نے تو اس کو اور سنبھالا دے ڈالا ہے
سب کہتے ہیں پتھر پگھلے، لوہا یاں پر موم ہوا ہے 
تجھ کو قدرت نے کیوں دل پر ایسا تالا دے ڈالا ہے 
کیسے اُجلے خواب بُنے تھے ہم سب نے بھی اپنے اندر 
روشن خوابوں کے منظر کو، دھندلا ہالا دے ڈالا ہے 
رستہ روک کے مجھ سے، جس نے پوچھا تھا احوال مِرا 
رخصت کرتے وقت تو اس نے زہر کا بھالا دے ڈالا ہے 
میں نے جتنے قدم اٹھائے، گھوم کے پھر واں آن پڑی ہوں 
اس کی یادوں کا قسمت نے کیسا جالا دے ڈالا ہے

سعدیہ بشیر

No comments:

Post a Comment