ہم سمجھے تھے ہم نے غم کو دیس نکالا دے ڈالا ہے
تیری باتوں نے تو اس کو اور سنبھالا دے ڈالا ہے
سب کہتے ہیں پتھر پگھلے، لوہا یاں پر موم ہوا ہے
تجھ کو قدرت نے کیوں دل پر ایسا تالا دے ڈالا ہے
کیسے اُجلے خواب بُنے تھے ہم سب نے بھی اپنے اندر
رستہ روک کے مجھ سے، جس نے پوچھا تھا احوال مِرا
رخصت کرتے وقت تو اس نے زہر کا بھالا دے ڈالا ہے
میں نے جتنے قدم اٹھائے، گھوم کے پھر واں آن پڑی ہوں
اس کی یادوں کا قسمت نے کیسا جالا دے ڈالا ہے
سعدیہ بشیر
No comments:
Post a Comment