Saturday 10 February 2018

فقط آنکھوں میں اشکوں کے کہاں سیلاب رہتے ہیں

فقط آنکھوں میں اشکوں کے کہاں سیلاب رہتے ہیں
بہت سے دل بھی ایسے ہیں جو زیرِ آب رہتے ہیں
جو روشن کر نہیں سکتے مقدر کے اندھیروں کو
وہ شعلے گھر جلانے کو بہت بے تاب رہتے ہیں
خدایا کن زمینوں پر خوشی کے پھول کھلتے ہیں 
فلک کس حال میں ہیں وہ جہاں مہتاب رہتے ہیں
انہیں صورت میں ڈھلنے کا کبھی موقع نہیں ملتا
بہت سے خواب ایسے ہیں جو زیرِ خواب رہتے ہیں
یہاں بس غم کی دلدل ہے جہاں پر ہم قدم رکھیں
چٹانیں بھربھری جب ہوں وہاں احباب رہتے ہیں
وہاں پر خرقہ پوشوں کی زبانیں گنگ رہتی ہیں
جہاں کردار مر جائیں وہاں انساب رہتے ہیں

سعدیہ بشیر

No comments:

Post a Comment