جان دے کر تجھے جینے کی دعا دیتے ہیں
کتنا انمول وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں
بامروت ہیں مِرے شہر کے رہنے والے
لے کے بینائی مِری، دیپ جلا دیتے ہیں
حاکمِ وقت سے رکھتے ہیں عداوت، لیکن
کس قدر خوف سمایا ہے یہاں آنکھوں میں
خوفِ تعبیر سے ہم خواب بھلا دیتے ہیں
دن کو بے چین کیے رکھتی ہیں یادیں تیری
شب کو نیندوں سے تیرے خواب جگا دیتے ہیں
ایسے کرتے ہیں ادا فرض تِری چاہت کا
ہم تِرے بھولنے والوں کو بھلا دیتے ہیں
اب تو روتے ہیں مِری موت پہ دشمن میرے
وقت کے بعد یہاں لوگ جزا دیتے ہیں
شازیہ اکبر
No comments:
Post a Comment