Tuesday 27 February 2018

جان دے کر تجھے جینے کی دعا دیتے ہیں

جان دے کر تجھے جینے کی دعا دیتے ہیں
کتنا انمول وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں 
بامروت ہیں مِرے شہر کے رہنے والے
لے کے بینائی مِری، دیپ جلا دیتے ہیں 
حاکمِ وقت سے رکھتے ہیں عداوت، لیکن
اس کی ہر ہاں میں سبھی ہاں بھی ملا دیتے ہیں 
کس قدر خوف سمایا ہے یہاں آنکھوں میں 
خوفِ تعبیر سے ہم خواب بھلا دیتے ہیں 
دن کو بے چین کیے رکھتی ہیں یادیں تیری
شب کو نیندوں سے تیرے خواب جگا دیتے ہیں 
ایسے کرتے ہیں ادا فرض تِری چاہت کا 
ہم تِرے بھولنے والوں کو بھلا دیتے ہیں 
اب تو روتے ہیں مِری موت پہ دشمن میرے
وقت کے بعد یہاں لوگ جزا دیتے ہیں 

شازیہ اکبر

No comments:

Post a Comment