Tuesday 27 February 2018

اس نے اک اقرار میں ہاں سے نہیں کو دھو دیا

اس نے اک اقرار میں ہاں سے نہیں کو دھو دیا
ریت سے جھلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا
آخرش وہ اور اس کی بوریا ہی رہ گئے
دل کی طغیانی نے شاہ و شہ نشیں کو دھو دیا
دل میں اسکی شکل کے سو عکس اب بنتے نہیں
ایک ہی آنسو نے چشمِ بے یقیں کو دھو دیا
دھوپ کو ابرِ مقدس ارغوانی کر گیا
بوسۂ باراں نے ہر شے کی جبیں کو دھو دیا
ظلم برپا تو ہوا لیکن کہاں برپا ہوا
میری غفلت نے کسی کی آستیں کو دھو دیا
جسم پر چھائی ہوئی شہوت کے ابرِ نار کا
قہر وہ برسا کہ ہر نقشِ حسیں کو دھو دیا

آفتاب اقبال شمیم

No comments:

Post a Comment