مِرے خلاف ان میں باہمی مشورے ہوئے ہیں
یہ دوست جو ایک ایک کر کے پرے ہوئے ہیں
چھتیں ٹپکنا بھی ایک نعمت ہے، مدتوں بعد
ہمارے گھر کے تمام برتن بھرے ہوئے ہیں
کوئی انہیں مار دے تو آدھی سزا ہی پائے
ہمارے کندھوں کا جھکنا، طبی مرض نہیں ہے
ہم ایک نادیدہ بوجھ ان پر دھرے ہوئے ہیں
اندھیرے کمرے میں خوف، خواہش کی کشمکش ہے
بڑے ہنسے جا رہے ہیں، بچے ڈرے ہوئے ہیں
اداس ماحول، نم، فراہم کیا مسلسل
بڑی تگ و دو سے زخم کچھ کچھ ہرے ہوئے ہیں
مِرا مقدر ہے بس تاسف میں ہاتھ ملنا
کسی مشقت سے تھوڑی یہ کھردرے ہوئے ہیں
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment