جب بھی شکووں پہ بات رکتی ہے
ہر نشاطِ حیات رکتی ہے
یوں اترتی ہے دل میں یاد ان کی
جیسے کوئی برات رکتی ہے
یوں نہ اِٹھلا کے، مسکرا کے چلو
سفر آساں نہیں محبت کا
ہر قدم پر حیات رکتی ہے
موت دیتی ہے زندگی کا ساتھ
ساتھ چلتی ہے، ساتھ رکتی ہے
دم دلاسوں سے کیا کبھی اے چرخؔ
غم کی ماری حیات رکتی ہے
چرخ چنیوٹی
No comments:
Post a Comment