تمہاری الفت کے اس جنوں نے عجیب جادو جگا دیا ہے
میں بھولنا چاہتی تھی تم کو، زمانہ تم نے بھلا دیا ہے
مِرے لہو میں یہ ننھے منے چراغ کتنے ہی جل اٹھے ہیں
یہ کیسے تم نے چھُوا ہے جاناں! کہ میرا پہلو جلا دیا ہے
میں اپنے لفظوں کو نکہتوں کے پروں سے اڑتا بھی دیکھتی ہوں
یہاں غبارِ سفر نے کتنے مسافروں کو بھلا دی منزل
کوئی ہے جس نے غبار رستوں پہ کہکشاں کو سجا دیا ہے
نہ اس کے جیون میں کچھ توازن نہ اس کی بحروں میں کچھ ترنم
کہ جس نے چاہت کے قافیے کو غزل سے اپنی مٹا دیا ہے
شازیہ اکبر
No comments:
Post a Comment