Saturday 10 February 2018

اداسی گرد جمی ہے آئینے پر

اداسی

گرد جمی ہے آئینے پر
میز پہ رکھی ڈائری چپ ہے
سوکھ چکی ہے قلم سیاہی
اور کتابیں بھی گم صم ہیں
شکن شکن ہے بستر سارا
گجرے کب کے ٹوٹ چکے ہیں
جیسے اس کمرے کے سارے
ارماں تجھ بن روٹھ چکے ہیں

شازیہ اکبر

No comments:

Post a Comment