آج میں اکیلا ہوں
دلِ گریزاں
چلو کہیں پر
کھلی ہواؤں میں
روئیں جا کر
دلِ گریزاں
یہاں دُھواں ہے کدورتوں کا
دکھوں کی توقیر کیا یہاں ہو
کہ یہ جہاں ہے ضرورتوں کا
کدورتوں کی گھٹن سے باہر
دلِ گریزاں
چلو کہیں پر
کھلی ہواؤں میں
روئیں جا کر
دلِ گریزاں
کھلی ہوا کی اداسیوں میں
ہمارے رونے کی خوشبوئیں ہیں
کھلی ہوا کی اداسیوں میں
تمہارے ہونے کی خوشبوئیں ہیں
یہاں تو ایک سانس بھی ہے دُوبھر
دلِ گریزاں
چلو کہیں پر
کھلی ہواؤں میں
روئیں جا کر
دلِ گریزاں
نثار ناسک
No comments:
Post a Comment