موت کا سکہ
آؤ چُرا کے لہو سی سرخی
وقت سے فرصت
اور سورج سے تھوڑی حدت
پھر دھڑکن کی چابک لے کر
ڈوبتی نبضوں کو دوڑائیں
دریاؤں کو پیچھے چھوڑیں
کُہساروں کو ٹھوکر ماریں
تیز ہوا کی رَتھ پر بیٹھیں
اور زمانے کو بدلائیں
موت کے سکے کو اُلٹائیں
شازیہ اکبر
No comments:
Post a Comment