Thursday, 15 February 2018

کیا کریں

کیا کریں

مری تری نگاہ میں
جو لاکھ انتظار ہیں
جو میرے تیرے تن بدن میں
لاکھ دل فگار ہیں
جو میری تیری انگلیوں کی بے حسی سے
سب قلم نزار ہیں

جو میرے تیرے شہر کی
ہر اک گلی میں
میرے تیرے نقشِ پا کے بے نشاں مزار ہیں
جو میری تیری رات کے
ستارے زخم زخم ہیں
جو میری تیری صبح کے
گلاب چاک چاک ہیں
یہ زخم سارے بے دوا
یہ چاک سارے بے رفو
کسی پہ راکھ چاند کی
کسی پہ اوس کا لہو
یہ ہے بھی یا نہیں، بتا
یہ ہے کہ محض جال ہے
مرے تمہارے عنکبوتِ وہم کا بُنا ہوا
جو ہے تو اس کا کیا کریں
نہیں ہے تو بھی کیا کریں
بتا، بتا  
بتا، بتا

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment