Tuesday 27 February 2018

کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں

کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں 
اشک آنکھوں میں مسافر کی طرح آتے ہیں
کیوں تِرے ہجر کے منظر پہ ستم ڈھاتے ہیں 
زخم بھی دیتے ہیں اور خواب بھی دکھلاتے ہیں
ہم بھی ان بچوں کی مانند کوئی پل جی لیں 
ایک سِکہ جو ہتھیلی پہ سجا لاتے ہیں
یہ تو ہر روز کا معمول ہے حیران ہو کیوں 
پیاس ہی پیتے ہیں ہم بھوک ہی ہم کھاتے ہیں
ہر بڑا بچوں کو جینے کی دعا دیتا ہے 
ہم بھی شاید اسی ورثے کی سزا پاتے ہیں
صبح لے جاتے ہیں ہم اپنا جنازہ گھر سے 
شام کو پھر اسے کاندھوں پہ اٹھا لاتے ہیں
شہر کی بھیڑ میں کیا ہو اسی خاطر آزرؔ 
اپنی پہچان کو ہم گھر میں ہی چھوڑ آتے ہیں

کفیل آزر

No comments:

Post a Comment