ایک مدت سے طلبگار ہوں کن کا ان کا
تشنۂ حسرت دیدار ہوں، کن کا ان کا
جان کو بیچ کے یہ نقدِ دل اب لایا ہوں
سب سے پہلے میں خریدار ہوں کن کا ان کا
امتداد اس مِرے بیمار کا مت پوچھ طبیب
مخلصی قید سے مشکل ہے مجھے تا دم مرگ
دامِ الفت میں گرفتار ہوں کن کا ان کا
بود و باش اپنا بتاؤں میں تمہیں کیا یارو
ساکن سایۂ دار ہوں کن کا ان کا
ہے بجا فخر کروں اپنی اگر تالا پر
کفش برداروں کا سردار ہوں کن کا ان کا
گالیاں تجھ کو جو دیتے ہیں یہ حاتمؔ ہیں کون
کچھ نہ پوچھو میں گنہگار ہوں کن کا ان کا
تو سزا وار سزا کس کا ہوا ہے حاتمؔ
صاحب من میں گنہگار ہوں کن کا ان کا
شاہ حاتم
(شیخ ظہور حاتم)
(شیخ ظہور حاتم)
No comments:
Post a Comment