Saturday, 10 February 2018

شکوہ گردش حالات لئے پھرتا ہے

شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے
جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے
اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوقِ ملاقات لیے پھرتا ہے
شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے، لیکن
اب بھی کچھ سوکھے ہوۓ بات لیے پھرتا ہے
سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے
اپنے ساۓ کو بھی جو ساتھ لیے پھرتا ہے
آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے
لے تو مہر سے چاند کی جھلمل انورؔ
اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے

انور مسعود

No comments:

Post a Comment