اسے تو پاسِ خلوصِ وفا ذرا بھی نہیں
مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں
گھِرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب سے
کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں
مآل غنچہ و گُل ہے مِری نگاہوں میں
طلوعِ صبحِ ازل سے میں ڈھونڈھتا تھا جسے
مِلا تو ہے، پہ مِری سمت دیکھتا بھی نہیں
مِری صدا سے بھی رفتار تیز تھی اس کی
مجھے گِلہ بھی نہیں ہے جو وہ رکا بھی نہیں
بکھر گئی ہے نگاہوں کی روشنی ورنہ
نظر نہ آئے وہ اتنا تو فاصلہ بھی نہیں
سمٹ رہے ہیں ستاروں کے فاصلے انورؔ
پڑوسیوں کو مگر کوئی جانتا بھی نہیں
انور مسعود
No comments:
Post a Comment