Friday, 9 February 2018

جہاں کہیں وہ سر شام بے نقاب ملے

جہاں کہیں وہ سرِ شام بے نقاب ملے
سحر کے روپ میں ہمرنگِ آفتاب ملے
خدا کے نام پہ جلووں کو بانٹتے جاؤ
زمانہ فیض اٹھائے، تمہیں ثواب ملے
رہِ حیات میں وہ ہمسفر رہے جب تک
بلند و پست کے ماحول پُر شباب ملے
شبِ فراق ستارے بجھے بجھے سے ہیں
اٹھاؤ پردۂ رخ، ان کو آب و تاب ملے
ہے میکدے میں سکوں، پھِر پھِرا کے دیکھ لیا
مقام اور تھے جتنے، وہ پُر عذاب ملے
کمالِ حسنِ تصور ہے یہ کہ جس کے طفیل
وہ ہر حجاب میں اے چرخ بے حجاب ملے

چرخ چنیوٹی

No comments:

Post a Comment