جہاں کہیں وہ سرِ شام بے نقاب ملے
سحر کے روپ میں ہمرنگِ آفتاب ملے
خدا کے نام پہ جلووں کو بانٹتے جاؤ
زمانہ فیض اٹھائے، تمہیں ثواب ملے
رہِ حیات میں وہ ہمسفر رہے جب تک
شبِ فراق ستارے بجھے بجھے سے ہیں
اٹھاؤ پردۂ رخ، ان کو آب و تاب ملے
ہے میکدے میں سکوں، پھِر پھِرا کے دیکھ لیا
مقام اور تھے جتنے، وہ پُر عذاب ملے
کمالِ حسنِ تصور ہے یہ کہ جس کے طفیل
وہ ہر حجاب میں اے چرخ بے حجاب ملے
چرخ چنیوٹی
No comments:
Post a Comment