Wednesday, 7 February 2018

یہی تو زیست میں سب سے بڑا خسارہ ہوا

یہی تو زیست میں سب سے بڑا خسارہ ہوا 
کہ لوٹ کر کبھی آیا نہ دن گزارا ہوا
پلک جھپکتے ہی بدلے ہیں اس جمال کے رنگ 
میں کیا بتاؤں کہاں کون سا نظارہ ہوا
وفا کے نام پر اس کو غلام چاہیئے تھا 
پھر اس کے ہاتھ کا میری طرف اشارہ ہوا
وہ جب بھی چاہے زمیں کو پلٹ بھی سکتا ہے 
پہاڑ جس کے اشارے سے پارہ پارہ ہوا
غزل میں آنے لگے ایسے خدوخال اس کے 
وہ شخص جیسے محبت کا استعارہ ہوا
زمیں سے تا بہ فلک روشنی ہی روشنی تھی 
چراغِ حجرۂ درویش جب ستارہ ہوا
تمام شہر کے بارے میں کیا کہوں خالد 
یہی بہت ہے کوئی شخص تو ہمارا ہوا

خالد سجاد احمد

No comments:

Post a Comment