یہی تو زیست میں سب سے بڑا خسارہ ہوا
کہ لوٹ کر کبھی آیا نہ دن گزارا ہوا
پلک جھپکتے ہی بدلے ہیں اس جمال کے رنگ
میں کیا بتاؤں کہاں کون سا نظارہ ہوا
وفا کے نام پر اس کو غلام چاہیئے تھا
وہ جب بھی چاہے زمیں کو پلٹ بھی سکتا ہے
پہاڑ جس کے اشارے سے پارہ پارہ ہوا
غزل میں آنے لگے ایسے خدوخال اس کے
وہ شخص جیسے محبت کا استعارہ ہوا
زمیں سے تا بہ فلک روشنی ہی روشنی تھی
چراغِ حجرۂ درویش جب ستارہ ہوا
تمام شہر کے بارے میں کیا کہوں خالد
یہی بہت ہے کوئی شخص تو ہمارا ہوا
خالد سجاد احمد
No comments:
Post a Comment