Wednesday, 7 February 2018

گاہے گاہے خواہش دل کے دروازے تک آتی ہے

نادانی

گاہے گاہے خواہش دل کے دروازے تک آتی ہے
چپکے سے اک سیندھ لگا کر مژدہ نیا سناتی ہے
دل کے در سے لپٹا ہر اک جذبہ شور مچاتا ہے
دل ہلکورے لے لیتا ہے
لیکن اس کی یاد کی تنبیہہ سہمائے سا رکھتی ہے
انگاروں کو چھونے والے پنچھی کب یہ سمجھے ہیں
کوئی حکمت کا پہلو تھا جو خواہش ناکام ہوئی ہے
اپنے اندر کی ظلمت میں صبح صادق کا اندھیرا
دیکھ کے ناداں
فکر زدہ ہیں شام ہوئی ہے

سعدیہ بشیر

No comments:

Post a Comment