نادانی
گاہے گاہے خواہش دل کے دروازے تک آتی ہے
چپکے سے اک سیندھ لگا کر مژدہ نیا سناتی ہے
دل کے در سے لپٹا ہر اک جذبہ شور مچاتا ہے
دل ہلکورے لے لیتا ہے
لیکن اس کی یاد کی تنبیہہ سہمائے سا رکھتی ہے
انگاروں کو چھونے والے پنچھی کب یہ سمجھے ہیں
کوئی حکمت کا پہلو تھا جو خواہش ناکام ہوئی ہے
اپنے اندر کی ظلمت میں صبح صادق کا اندھیرا
دیکھ کے ناداں
فکر زدہ ہیں شام ہوئی ہے
سعدیہ بشیر
گاہے گاہے خواہش دل کے دروازے تک آتی ہے
چپکے سے اک سیندھ لگا کر مژدہ نیا سناتی ہے
دل کے در سے لپٹا ہر اک جذبہ شور مچاتا ہے
دل ہلکورے لے لیتا ہے
لیکن اس کی یاد کی تنبیہہ سہمائے سا رکھتی ہے
انگاروں کو چھونے والے پنچھی کب یہ سمجھے ہیں
کوئی حکمت کا پہلو تھا جو خواہش ناکام ہوئی ہے
اپنے اندر کی ظلمت میں صبح صادق کا اندھیرا
دیکھ کے ناداں
فکر زدہ ہیں شام ہوئی ہے
سعدیہ بشیر
No comments:
Post a Comment